۳ آذر ۱۴۰۳ |۲۱ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 23, 2024
رہبر انقلاب اسلامی سے ملک ایران کی اہم علمی و سائنسی اور غیر معمولی استعداد کی حامل شخصیات کی ملاقات

حوزہ/ رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں فرمایا: سامراجیوں کی سافٹ وار کا ایک اہم حصہ آج بھی اور ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ قوم کو اس کی صلاحیت و استعداد سے غافل کر دیں، اسے اپنی صلاحیت سے بے اعتنا کر دیں، یہاں تک کہ ایسی حالت میں پہنچا دیں کہ وہ خود ہی اس استعداد کا انکار کر بیٹھے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،رہبر انقلاب اسلامی نے بدھ 17 نومبر 2021 کو ملک کی بعض ممتاز علمی شخصیات اور غیر معمولی صلاحیت کے حامل افراد (الیٹس) سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے آغاز میں آیۃ اللہ العظمی امام خامنہ ای نے غیر معمولی صلاحیت کے حامل نوجوانوں سے ملاقات پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کچھ اہم نکات کی طرف اشارہ کیا۔ انھوں نے غیر معمولی صلاحیت کو ایک نعمت الہی قرار دیتے ہوئے نوجوانوں کو یاد دہانی کرائي کہ اس الہی نعمت کا شکر ادا کرتے رہیں۔ انہوں نے غیر معمولی صلاحیت کی خصوصیات کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ جو چیز، انسان کو 'الیٹ' بناتی ہے وہ صرف ذہنی استعداد اور صلاحیت نہیں ہے۔ کیونکہ بہت سے لوگوں کے پاس ذہنی صلاحیت ہوتی ہے لیکن ضائع ہو جاتی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے مزید کہا کہ ذاتی استعداد کے ساتھ ہی اس نعمت کی قدر بھی سمجھنی چاہیے اور محنت اور جدوجہد سے اس استعداد کو سہارا دینا چاہیے۔ انہوں نے کہا: ایک باصلاحیت اور بااستعداد انسان، اگر اس ذہن کو استعمال نہ کرے، اس صلاحیت سے استفادہ نہ کرے اور اسے تساہلی، بے توجہی اور غفلت کی نذر کر دے تو یقینی طور پر وہ الیٹ میں تبدیل نہیں ہوگا۔ الیٹ وہ شخص ہوتا ہے جو صلاحیتوں کی قدر کرتا ہے۔

آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے غیر معمولی صلاحیت و استعداد کی قدر شناسی کو پہلے مرحلے میں خود الیٹ کی اور دوسرے مرحلے میں اس کے اطراف والوں یعنی فیملی، اساتذہ اور اونچی سطح پر ملکی حکام اور عہدیداروں کی ذمہ داری بتایا۔ انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ذہنی صلاحیت کے لحاظ سے ایران، دنیا کی اوسط سطح سے اوپر ہے، کہا: سامراجیوں کی سافٹ وار کا ایک اہم حصہ آج بھی اور ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ قوم کو اس کی صلاحیت و استعداد سے غافل کر دیں، اسے اپنی صلاحیت سے بے اعتنا کر دیں، یہاں تک کہ ایسی حالت میں پہنچا دیں کہ وہ خود ہی اس استعداد کا انکار کر بیٹھے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے افریقا میں سامراج کے کردار کی یاد دہانی کراتے ہوئے، اس براعظم کو تاریخ کے عظیم تمدنوں کا مقام بتایا جو سامراج کے پہنچنے کے بعد پوری طرح سے نابود ہو گئے۔ انھوں نے جواہر لال نہرو کی کتاب glimpses of world history))کا ذکر کرتے ہوئے کہا: نہرو کہتے ہیں کہ ہندوستان میں انگریزوں کی آمد سے پہلے، یہ ملک اپنی داخلی صنعتوں کے لحاظ سے، اس وقت کی، انیسویں صدی کی، انیسویں صدی کے اوائل کی صنعتوں کے لحاظ سے ایک خود کفیل ملک تھا، جب انگریز وہاں پہنچے، پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی اور پھر برطانوی حکومت، تو انہوں نے وہ حالت کر دی کہ ہندوستانیوں کو محسوس ہونے لگا کہ برطانوی اور غیر ملکی مصنوعات کے بغیر زندگي بسر کرنا ممکن ہی نہیں ہے، یعنی ایک قوم کا خود اپنی صلاحیتوں سے انکار۔انہوں نے اپنی ت‍قریر میں اسی طرح دو سو سال پہلے ایران کی صورتحال کی تشریح کی اور اسے بھی اسلامی انقلاب سے پہلے تک اسی مشکل میں مبتلا ملک قرار دیا۔

آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے نوآبادیات میں سامراجیوں کے رویے کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا: جب کوئي بھی قوم اپنی صلاحیت سے غفلت میں مبتلا ہو جاتی ہے تو اسے لوٹنا آسان ہو جاتا ہے۔ غفلت اور لوٹ کھسوٹ ایک دوسرے کی تکمیل کرنے والے عناصر ہیں، غفلت، لوٹ کھسوٹ کی تمہید ہے، لوٹ کھسوٹ، غفلت کو بڑھانے والی چیز ہے۔ یہ چیز ان ملکوں پر لاگو ہوتی ہے جو براہ راست سامراج کے قبضے میں تھے، وہ ملک بھی اس چیز کا مصداق ہیں جو ہمارے ملک کی طرح براہ راست سامراج کی نوآبادی نہیں تھے، یہی وجہ ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ہم غافل رہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے ایران کے میزائل اور دفاعی پروگرام کے سلسلے میں تشہیراتی ہنگاموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے ایرانی عوام کو ان کی صلاحیتوں سے غافل کرنے کے لیے دشمن کے پروپیگنڈوں کا مصداق بتایا۔ انہوں نے ایران میں غیر معمولی صلاحیت کے حامل نوجوانوں کی راہ میں پائی جانے والی کچھ رکاوٹوں اور نامناسب رویے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھیں مسائل و مشکلات سے لڑنے اور رکاوٹوں کو دور کرنے کی نصیحت کی اور غیر معمولی صلاحیت کی نعمت کا شکر ادا کرنے کا ایک اور راستہ، اسے خدا کی راہ میں استعمال کرنا بتایا۔

آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے ایران کو دنیا میں علم و سائنس کے مرکز میں تبدیل کرنے کے لیے ایک طے شدہ افق کی ترسیم کرتے ہوئے اس کے لیے کچھ مرحلوں کا ذکر کیا اور کہا: پہلا مرحلہ یہ ہے کہ ہم آج دنیا کے علم و دانش کے موجودہ مقام سے اپنے فاصلے کو ختم کریں، ابھی ہم اس مقام سے دور ہیں۔ انہوں مزید کہا: البتہ ہم اپنے اعداد و شمار میں، جو عالمی اعداد و شمار پر مبنی ہیں، اپنی علمی و سائنسی پیشرفت کو سراہتے ہیں، قابل ستائش ہے بھی اور واقعی ہم نے پیشرفت کی ہے لیکن ابھی دنیا میں علم و سائنس کی فرنٹ لائن سے ہمارا فاصلہ زیادہ ہے، کیونکہ دو سو سال تک ہمیں پيچھے روکے رکھا گیا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد تیز رفتار علمی پیشرفت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، ملک کے دوسرے اور تیسرے علمی مراحل کو اس طرح بیان کیا: دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ ہم، علم و دانش کے عالمی خطوط اور سرحدوں کو عبور کر جائيں یعنی ہم نئي سائنسی خدمات اور نئے سائنسی انکشافات دنیا کے سامنے پیش کر سکیں اور اگلا مرحلہ یہ ہے کہ ہم نئے اسلامی تمدن کے لیے کوشاں رہیں۔

آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل افراد کو علم و سائنس کے میدان میں خلاقیت کے استعمال کی نصیحت کی اور کہا: علم میں خلاقیت یہ ہے کہ ایک قانون، جو فطرت میں موجود ہے اور اب تک منکشف نہیں ہوا ہے، آپ اس کا انکشاف کرتے ہیں، اس کی بنیاد پر علم کی پیداوار ہوتی ہے، اس کی اساس پر متعدد تکنیکیں وجود میں آتی ہیں، آپ اس کی کوشش کیجیے۔انہوں نے ملک کے علمی حلقوں سے اپیل کی کہ وہ ملک کے موجودہ مسائل پر توجہ دیں، ہر ایک مسئلے کو بنیاد بنا کر تحقیقات انجام دیں اور ان کی توجہ، مشکلات کے حل کے لیے علمی راہ کی تلاش پر مرکوز رہے۔ انھوں نے ماحولیات اور ٹریفک کے مسائل کو، ان ہی مسائل میں شمار کیا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے آرٹیفیشیل انٹیلیجنس کے سلسلے میں سائنسی تحقیقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، ایران کا ایک سائنسی ہدف، آرٹیفیشیل انٹیلیجنس کے میدان میں دنیا کے دس برتر ملکوں کی فہرست میں شامل ہونا قرار دیا اور سائنسدانوں سے کہا کہ وہ اس موضوع کو اپنا ہدف بنا لیں۔

آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنی تقریر کے آخر میں کہا ایران کا مستقبل نوجوانوں سے ہے اور وہی اسلامی ایران کے مستقبل کے معمار ہیں۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ مختلف عہدوں پر نوجوانوں کو متعین کرے اور اسی طرح انہوں نے غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل نوجوانوں سے بھی کہا کہ وہ اپنے آپ کو تیار کریں اور ملک کے مینیجمنٹ میں اپنی جگہ سنبھالیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .